یہ رشتہ کیوں تم نبھا رہے ہو |
یہ قرض ہے جو چکا رہے ہو |
تمھاری نظریں یہ کہہ رہی ہیں |
کہ مجھ سے تم کچھ چھپا رہے ہو |
جو سچ ہے وہ آج کہہ دو مجھ سے |
یوں بات کو کیوں گھما رہے ہو |
اب وقتِ رخصت آ چلا ہے |
یہ وقت اپنا گنوا رہے ہو |
گیا جو لمحہ نہ مڑ کے آیا |
یہ لمحہ تم کیوں لٹا رہے ہو |
تمہیں میں آزاد کر رہا ہوں |
نئی فضاؤں میں اڑ کے دیکھو |
جو خواب ادھورے سے رہ گئے تھے |
وہ خواب پورے تم کر کے دیکھو |
ہوا مناسب ہے اب کے جاناں |
تم اب ستاروں کو چھو کے دیکھو |
نیا سفر ہو تمہیں مبارک |
تم اپنے ماضی سے کٹ کے دیکھو |
مگر مجھے کیوں یہ لگ رہا ہے |
انا کے چکر میں پڑ کے تم تو |
یہ بدلہ مجھ سے چکا رہے ہو |
جہاں پہ لکھا تھا نام میرا |
وہاں سے اس کو مٹا رہے ہو |
زکر کر کے عدو کا مجھ سے |
یوں دل پہ خنجر چلا رہے ہو |
مجھے یہ اندازہ ہو چلا ہے |
عدو کو دل میں بسا رہے ہو |
جہاں سے پہلے بھی چوٹ کھائی |
وہیں سے پھر چوٹ کھا رہے ہو |
سنو ذرا اب مری نصیحت |
انا سے اپنی نکل کے دیکھو |
ہمیشہ تم نے سہارے ڈھونڈے |
یہاں سہارے سراب مانند |
بھروسہ خود پر ہی کر کے دیکھو |
خود اعتمادی میں اک نشہ ہے |
یہی نشہ اب تم کر کے دیکھو |
خود انحصاری تمھاری منزل |
تم اب یہ منزل پہنچ کے دیکھو |
اس زندگی کے کسی بھی موڑ پر |
اگر کبھی ہو مری ضرورت |
مجھے بس آواز دے کے دیکھو |
معلومات