رمضان جب سے آ گیا اکناف و ناف میں
شام و سحر ہیں رونقیں شہر و مضاف میں
مہمان بن کے آتا ہے ماہِ صیام یہ
ضائع نہ ہوں یہ دن کہیں لاف و گزاف میں
یہ برکتوں کے دن ہیں یہ راتیں ہیں قیمتی
غفلت کے ہم نہ سو کے گزاریں لحاف میں
ہر روز ہم پڑھیں اسے ایسا نہ ہو کہیں
پھر طاق پر پڑا رہے قرآں غلاف میں
سائے گنہ کے دور ہوں توبہ کے نور سے
نازل ملائکہ ہوں دلِ پاک صاف میں
اس ماہ میں ہی ڈھونڈنے کو لیل قدر کی
کچھ خوش نصیب بیٹھتے ہیں اعتکاف میں
طارق خدا کا قُرب ہے گر مقصدِ حیات
بہتر ہے پھر رہیں اسی گھر کے طواف میں

0
50