تری یادوں کے جگنو
تری خوشبو سمیٹے
حصارِ غم میں چمکے
ہاں یوں چمکے کہ مجھ کو
رو دینے پر سرِ شام
صنم مجبور کیا ہے
ترے غم کے قفس میں
بھلا اور ہوتا کیا ہے
ستمگر رونے سے پھر
وہ جگنو کھو کے پھر سے
کسی اور کو ساتے
نسی اور کو جگاتے
مری وحشت کو پھر سے
جگانے آتے ہیں ہاں

0
45