میکدے میں کبھی ساقی نے اگر چھوڑ دیا |
ہم نے کب نشّے میں محبوب کا در چھوڑ دیا |
ذکرِ دُشنام دہی سُن کے جو رونا آیا |
اشک پلکوں میں پرونے کا ہنر چھوڑ دیا |
راحتِ وصل کی عادت نہیں ڈالی خود کو |
قیس نے ہجر میں تنہائی کا ڈر چھوڑ دیا |
اب تو جنگل میں بھی سنّاٹا نہیں ہوتا کبھی |
شہر والوں نے کہاں شور ادھر چھوڑ دیا |
شکوہ ان سے نہیں بارات میں وہ آ نہ سکے |
اب جنازے میں بھی لوگوں نے گزر چھوڑ دیا |
ہم تو منزل پہ پہنچ کر بھی مسافر ہی رہے |
اُس نے جب آتے ہمیں دیکھا تو گھر چھوڑ دیا |
دیدۂ تر میں کہیں ڈوبنے والوں نے کہا |
ہم اُتر آئے جو دریا میں بھنور چھوڑ دیا |
رات بھر شمع نے محفل میں اُجالا کر کے |
کیا ہوا تم کو اگر وقتِ سحر چھوڑ دیا |
طارق انجامِ محبّت سے غرَض کیا ہم کو |
ہو گا افسوس اگر ہم نے سفر چھوڑ دیا |
معلومات