میکدے میں کبھی ساقی نے اگر چھوڑ دیا
ہم نے کب نشّے میں محبوب کا در چھوڑ دیا
ذکرِ دُشنام دہی سُن کے جو رونا آیا
اشک پلکوں میں پرونے کا ہنر چھوڑ دیا
راحتِ وصل کی عادت نہیں ڈالی خود کو
قیس نے ہجر میں تنہائی کا ڈر چھوڑ دیا
اب تو جنگل میں بھی سنّاٹا نہیں ہوتا کبھی
شہر والوں نے کہاں شور ادھر چھوڑ دیا
شکوہ ان سے نہیں بارات میں وہ آ نہ سکے
اب جنازے میں بھی لوگوں نے گزر چھوڑ دیا
ہم تو منزل پہ پہنچ کر بھی مسافر ہی رہے
اُس نے جب آتے ہمیں دیکھا تو گھر چھوڑ دیا
دیدۂ تر میں کہیں ڈوبنے والوں نے کہا
ہم اُتر آئے جو دریا میں بھنور چھوڑ دیا
رات بھر شمع نے محفل میں اُجالا کر کے
کیا ہوا تم کو اگر وقتِ سحر چھوڑ دیا
طارق انجامِ محبّت سے غرَض کیا ہم کو
ہو گا افسوس اگر ہم نے سفر چھوڑ دیا

1
62
پسندیدگی کا بہت شکریہ حمید اللہ ماہر صاحب

0