دشتِ تنہائی کو یادوں سے جو سیراب کیا |
دل نے انجانے میں آنکھوں کو بھی سیلاب کیا |
اشک مژگاں پہ ندامت کے چھپاؤں کیسے |
مجھ کو گزرے ہوئے لمحات نے آب آب کیا |
شام کو آ کے ترے گیت مجھے لوری دے دیں |
صبح دم آکے ترے نغموں نے آداب کیا |
میں جو مخمور محبّت میں تری رہتا ہوں |
اس نشے نے دلِ ویران کو شاداب کیا |
حسن کا جلوہ تِرا دیکھا ہے ہر سو میں نے |
تُو نے ہر ذرّے میں بند ایک آفتاب کیا |
تو نے بھیجا تھا مجھے عکس بنا کر اپنا |
خود کو جب دیکھا لگا ، آئنہ بے آب کیا |
پڑ گئی جس پہ تری ایک محبّت کی نظر |
تُو نے اس شخص کو اک گوہرِ نایاب کیا |
طارق اب آگے بڑھو ، دل کو منوّر کر لو |
اس نے اک شخص کو پھر نور سے مہ تاب کیا |
معلومات