ہم اس جہان میں مثلِ فقیر آتے ہیں
روایتوں میں الجھ کر اسیر آتے ہیں
جنابِ شیخ تو حوروں کے خواب ہی دیکھیں
ہمیں تو خواب میں منکر نکیر آتے ہیں
ہمیں یہ دوست یوں ملتے ہیں اس طرح جیسے
غریب بستی میں جیسے وزیر آتے ہیں
گلاب بھیجتے ہیں روز اس طرف ہم ہی
مگر ادھر سے ہمیشہ ہی تیر آتے ہیں
بس اک نظر کی ہمیں بھیک چاہیے شاہدؔ
تمھارے کوچے میں بن کر فقیر آتے ہیں

0
98