میرا پکڑ کے ہاتھ وہ واپس چلا گیا
جاتے ہوئے چراغ وہ سارے بجھا گیا
میرا گنہ یہ تھا کہ میں خاموش ہی رہی
لمحہ بہ لمحہ ہستی وہ میری مٹا گیا
کہتا تھا اس کے سامنے کیوں بولتی نہیں
میری زباں کھلی تو وہ اٹھ کر چلا گیا
مجھ کو یہ ڈر کہ ماں مری یہ سہہ نہ پائے گی
مردانگی کا زہر وہ مجھ کو پلا گیا
الزام بے وفائی کا مجھ پر لگا گیا
میری وفا کا قرض وہ ایسے چکا گیا
میں جس جگہ کھڑی تھی وہیں پر میں گڑ گئی
وہ تین لفظ بول کے کاغذ تھما گیا
چبھتی ہے اب نظر مجھے لوگوں کی اس طرح
وہ ایسے دیکھتے ہیں کہ میرا خدا گیا

0
106