اپنا چہرہ بھی کچھ نکھر آئے
جب کبھی وہ ہمیں نظر آئے
ہم تو آنکھیں بچھائے رستے میں
منتظر ہیں کہ کب ادھر آئے
گو تھکے تو نہیں ہیں چلنے سے
ختم ہونے کو اب سفر آئے
گھر سے آئے جو کوئی نامہ بر
لے کے اچھی کوئی خبر آئے
رات بھر جس کا انتظار کیا
اب تو ایسی کوئی سحر آئے
تھے ملائک اگرچہ ساتھ ان کے
بن کے پیغامبر بشر آئے
پڑ گئی خاص جن پہ اس کی نظر
اُس کی مرضی تھی جب جدھر آئے
امن کا گھر ہے یہ ضمانت ہے
جس کو آنا ہے بے خطر آئے
جب خدا ناخدا ہو کشتی کا
کیا ہے خطرہ اگر بھنور آئے
آکے ہم اس کے در پہ بیٹھے ہیں
اپنی تقدیر بھی سنور آئے
ساتھ مل کر کریں دعا اُس کے
اور ہم کو بھی کیا ہنر آئے
کہہ نہ پائے کوئی یہاں طارق
ہم تو سرحد کو پار کر آئے

0
31