مسلسل قوم ، جب سے سو رہی ہے |
تو قسمت اس کی ، اس پر رو رہی ہے |
دلِ مضطر کو آئے چین کیونکر |
دگر گوں حالت اس کی ہو رہی ہے |
بدلنے کا خیال آئے گا اک دن |
یہی امّید اب تک تو رہی ہے |
جو کہلائیں مسلماں فائدہ کیا |
اگر انسانیّت ہی کھو رہی ہے |
توقع رکھ کے، فصلِ گل ملے گی |
یہ کانٹے نفرتوں کے بو رہی ہے |
انہیں امّید ہے کس در سے لیکن |
توجّہ کس طرف ان کو رہی ہے |
اُٹھے ہیں پھر دُعا کو ہاتھ طارق |
عزیز ان کی محبّت جو رہی ہے |
معلومات