اب نہ رکھنا تو کسی سے یاریاں
ورنہ ہوگی چار سو رسوائیاں
میری راتوں کا ہے کچھ یوں ماجرا
کروٹیں انگڑائیاں بے تابیاں
دل کی حالت اب ہے ایسی بے مزہ
غفلتیں ہیں بے خودی بے کاریاں
دل مرا ماتم زدہ ہے اور وہاں
بج رہی ہے بانسری شہنائیاں
دل مرا ٹوٹا ہے لیکن شان سے
اب بھی باقی اس میں ہیں ارداسیاں
میرے دل میں دفن ہو کر رہ گئیں
میرے ہی دل کی کرم فرمائیاں
تجربہ کیسا ملا ہے کیا کہوں
پوچھتی ہیں راہ اب پروائیاں
اپنے دکھڑے کیا سناؤں میں تمہیں
سلوٹیں بے چینیاں بد نامیاں
آئی ہیں ملنے کو مجھ سے میرے گھر
بدلیاں برکھا رتیں گم نامیاں
تیرے غم نے مجھ کو کیا کیا دے دیا
شہرتیں اور سرخیاں دانائیاں
بے دلوں کا کام ہے بس اک یہی
بے لحاظی اس پہ پھر دشنامیاں
بے وفاؤں کے یہ سب ہتھیار ہیں
عشق بازی دل لگی دلداریاں
بھول جاؤں گا میں تجھ کو پھر تجھے
یاد آئیں گی مری فیاضیاں
کیا سنے عاثِرؔ️ کی کوئی بات کو
جب بھی دیکھو بس غزل فرمائیاں

31