میرے افکارِ پریشاں بھی تمہی ہوتے ہو
دل کی تسکین کا ساماں بھی تمہی ہوتے ہو
نور در نور کی چادر میں منوّر پیکر
میری نظروں میں وہ انساں بھی تمہی ہوتے ہو
تم محبّت پہ مری ناز بھی کرتے ہو مگر
میرے اخِلاص پہ حیراں بھی تمہی ہوتے ہو
فر طِ جذبات میں بے خود میں اگر ہو جاؤں
مرے اس شوق پہ قرباں بھی تمہی ہوتے ہو
میں بھٹک جاتا ہوں دنیا کی چکا چوند میں جب
راہ دکھلانے کا ساماں بھی تمہی ہوتے ہو
زخم ہر بار رقیبوں سے جو ملتا ہے مجھے
میرے ہر درد کا درماں بھی تمہی ہوتے ہو
جب اندھیروں میں زمیں راستہ اوجھل کر دے
تب فلک پر مہِ تاباں بھی تمہی ہوتے ہو
دور منزل ہے مری راہ کٹھن ہے لیکن
مشکلیں کرنے کو آساں بھی تمہی ہوتے ہو
میں تمہارے ہی لئے شعر کہا کرتا ہوں
میری سب غزلوں کا عنواں بھی تمہی ہوتے ہو
تم خلافت کی رِدا اوڑھ کے آئے ہو مگر
بادشاہ از درِ یزداں بھی تمہی ہوتے ہو
طارق اس دور میں دل تم بھی کہاں دے بیٹھے
اب سرِ کوچۂ جاناں بھی تمہی ہوتے ہو

1
91
پسندیدگی کا شکریہ ابراہیم ناصر صاحب!

0