نقضِ وفا کے داغ تھے دل پر لگا لئے |
لوہے کے تار پر نئے کپڑے سکھا لئے |
درزی سے لے کے آئی ہوں کُترن کی پوٹلی |
گھر آکے اپنے بچّوں کے کپڑے بنا لئے |
مجبور و بے نوا کی تو پہچان ہے یہی |
ہر جرم ہنس کے سہہ لیا آنسو بہا لئے |
بچّوں کی بھُوک نہ نہیں ہر گز نہیں جواز |
پھرتی ہو روز روز نئے آشنا لئے |
بچّوں کے امن و آشتی کو لے کے والدین |
ہر وقت مضطرب رہے دستِ دعا لئے |
یہ بھی تو تیری تلخ مزاجی کا ہے اثر |
کتنے عزیز دوست تھے سارےگنوا لئے |
لفظوں کے پیرہن میں سجے نُطق کے گلاب |
آنگن میں رکھ لئے کبھی دل میں سجا لئے |
احسانِ ایزدی تھا کہ ماں باپ کی دعا |
اقبال نے عوام میں ڈیرے جما لئے |
یا اِضطرابِ پیری ہے یا خَوفِ آخرت |
ہر بات پر امید نے آنسو سجا لئے |
معلومات