اظہارِ حسن باعثِ تخلیقِ کائنات
قلب و نظر ہیں محوِ ظہورِ تجلّیات
ہوش و خرد فقط تو کریں وصل کو محال
عشق و جنوں سے طے ہوں یہ سارے معاملات
پائے زمین و آسماں میں ایسے اتفاق
چشمِ فلک نے دیکھ لئے کتنے معجزات
جب تک نہ ہو تعلّقِ خاطر بنا ہوا
ہم لاکھ چاہیں کوئی بھی بنتی نہیں ہے بات
وہ مان جائے ہم جو رضا اس کی جان لیں
راضی وہ ہو گا جب بہ رضا ہوں گی مرضیات
سیلاب زلزلے کبھی کوئی وبا پڑے
ہوتے ہیں اس طرح کے تو دنیا میں سانحات
جب تک نہ اک کڑی سے ملے دوسری کڑی
ممکن کہاں ہے رونما ہوں ایسے واقعات
ہم اس کے راستے میں کھڑے اس طرح رہیں
شاید کبھی کہیں پڑے گی نظرِ التفات
لوگوں کی اس طرف کو توجّہ نہیں مگر
ہں بے وجہ یہ آفتیں بے انت حادثات
اب پھر سے ایک مردِ خدا نے کہا یہی
بدلو گے اپنے آپ کو تب پاؤ گے نجات
پہچان جاؤ مقصدِ تخلیق تم اگر
ایمان لا کے اس پہ عمل پر کرو ثبات
طارق نظامِ نو کی ضرورت ہے جلد اب
پیغام دو سبھی کو بچائے گا یہ حیات

0
1
126
پسندیدگی کا بہت شکریہ ناصر ابراہیم صاحب!