دنیا ہے دشتِ ویراں گلزار ذات تیری |
لائی ہے ظلمتوں میں انوار ذات تیری |
ہو گی تپش مہر کی میدانِ حشر میں جب |
امت کو کافی سایہء دیوار ذات تیری |
بس گرد راہ رکھنا ایسے گروہ کی ہی |
جس قافلے کی ہے جاں سالار ذات تیری |
غم روزگار کے یہ گھائل کریں گے کیسے |
کافی ہے مجھ کو ہادی غمخوار ذات تیری |
خلقِ عظیم داتا رحمت ہے تیری دائم |
قاسم تو راحتوں کا دلدار ذات تیری |
تیرے لئے چمن یہ سارے سجے ہوئے ہیں |
لولاک سے ہے ثابت مختار ذات تیری |
محمود مانگتا ہے رحمت حسیں کے باراں |
محبوب تو ہے رب کا غمخوار ذات تیری |
معلومات