دنیا ہے دشتِ ویراں گلزار ذات تیری
لائی ہے ظلمتوں میں انوار ذات تیری
ہو گی تپش مہر کی میدانِ حشر میں جب
امت کو کافی سایہء دیوار ذات تیری
بس گرد راہ رکھنا ایسے گروہ کی ہی
جس قافلے کی ہے جاں سالار ذات تیری
غم روزگار کے یہ گھائل کریں گے کیسے
کافی ہے مجھ کو ہادی غمخوار ذات تیری
خلقِ عظیم داتا رحمت ہے تیری دائم
قاسم تو راحتوں کا دلدار ذات تیری
تیرے لئے چمن یہ سارے سجے ہوئے ہیں
لولاک سے ہے ثابت مختار ذات تیری
محمود مانگتا ہے رحمت حسیں کے باراں
محبوب تو ہے رب کا غمخوار ذات تیری

145