جب تم سے اس نے آنے کا وعدہ نہیں کیا |
تو پھر وفا کا اس نے ارادہ نہیں کیا |
تم نے جگہ بنانے کی کو شش تو کی بہت |
دل اس نے اپنا اتنا کشادہ نہیں کیا |
بالا سمجھ کے خود کو جو بیٹھا رہا الگ |
اس نے نصیحتوں سے افادہ کیا نہ تھا |
اس سے جو چند لمحے ملاقات اک ہوئی |
ہم نے کبھی پھر اِس کا اعادہ کیا نہ تھا |
شاید نہ ہم سمجھ سکے اس کے مزاج کو |
اس نے بھی التفات کا وعدہ کیا نہ تھا |
دنیا کی دل فریبیوں سے اس کو عشق تھا |
ہم نے یہ شوق اپنا زیادہ کیا نہ تھا |
پیدا ہوئے تھے جب نہ چھپانے کو تھے گناہ |
قدرت نے انتظامِ لبادہ کیا نہ تھا |
مغلوب اس لئے نہ ہوئے خواہشوں کے ہم |
معصومیت نے اتنا بھی سادہ کیا نہ تھا |
طارق فریفتہ ہوئے اک شخص پر جو ہم |
پھر ترک اس کی چاہ کا جادہ نہیں کیا |
معلومات