رندوں کی محفلوں سے اگر مجتنب رہا
پیرانِ باصفا میں بھی مقبول کب رہا
دیکھا اسے ہر ایک نے مُٹھّی میں کچھ لئے
پوچھا نہیں کسی نے کبھی کیا سبب رہا
اُٹھّو کہ وقت لے رہا ہے تازہ کروٹیں
جاگو زمانہ وقت کا محتاج کب رہا
یوں تو تری کہانیاں اُلجھی رہیں سدا
پر اب کی بار دوست ترا دکھ عجب رہا
ذرّہ ہوں مَُیں تو کس لئے پیدا کیا مجھے
خورشید ہوں تو کس لئے مرہونِ شب رہا
اس گھر میں فرطِ عیش سے پیوستہ لب رہے
اس گھر میں شیر خوار کوئی تشنہ لب رہا
زردار کو گر اتنا نوازا کہ بھر دیا
پھر پوچھتے ہیں بے نوا تُو کس کا ربّ رہا
بحرِ ہُدیٰ ہے سب کے لئے ایک سا امید
سیراب ہؤ ا کوئی کوئی تشنہ لب رہا

65