روح کی دُور ، پیاس کی جائے
زندگی کیوں اداس کی جائے
سامنے آ رہی ہو منزل جب
زندہ رہنے کی آس کی جائے
دَور جب آ رہا ہے خوشیوں کا
دُور اب دل کی یاس کی جائے
وہ جو پینے کا شوق رکھتے ہیں
مے ذرا اُن کے پاس کی جائے
کیا عجب اس کا سامنا ہو تو
گفتگو کوئی خاص کی جائے
زندگی جب رقیق ہے اپنی
کیوں نہ یہ دل کو راس کی جائے
طارق اب اور سوچنا ہے کیا
سوچ ہی اُس کی داس کی جائے

0
42