روح کی دُور ، پیاس کی جائے |
زندگی کیوں اداس کی جائے |
سامنے آ رہی ہو منزل جب |
زندہ رہنے کی آس کی جائے |
دَور جب آ رہا ہے خوشیوں کا |
دُور اب دل کی یاس کی جائے |
وہ جو پینے کا شوق رکھتے ہیں |
مے ذرا اُن کے پاس کی جائے |
کیا عجب اس کا سامنا ہو تو |
گفتگو کوئی خاص کی جائے |
زندگی جب رقیق ہے اپنی |
کیوں نہ یہ دل کو راس کی جائے |
طارق اب اور سوچنا ہے کیا |
سوچ ہی اُس کی داس کی جائے |
معلومات