جو ہم نے عالمِ کون و مکان دیکھا ہے
ہے آگے اور کیا پر یہ جہان دیکھا ہے
کسی کی چشمِ تلطّف نے کر دیا گھائل
نہ اُس سا کوئی حسیں مہربان دیکھا ہے
ہمیں خوشی سے گزرنا ہے آزمائش سے
کہ اس سے پہلے بھی یہ امتحان دیکھا ہے
جواب دینے سے پہلے ذرا یہ سوچ تو لو
وہ کون ہے جسے تم نے مہان دیکھا ہے
طلسمِ ہوش رُبا کے نہیں یہ قصےّ جو
سنا ہے تم نے جو ہم نے ہر آن دیکھا ہے
شکار کرنے جو آئے شکار ہو کے چلے
نگاہ تیر تو ابرو کمان دیکھا ہے
کھُلے ہیں علم کے عرفان کے جو دروازے
کہیں پہ اور کیا ایسا گیان دیکھا ہے
ہمیں یقین کی جانب کچھ اور بڑھنا ہے
دُھویں سے آگ کا اب تک گمان دیکھا ہے
نہیں ہے دل کی تسلّی جو ہو نہ وصل نصیب
کلام ہو جو کبھی امتنان دیکھا ہے
پڑیں رہیں گے اسی در پہ ہم یونہی طارق
یہیں پہ ہوتے ہیں سب کامران دیکھا ہے

0
83