جانتا کب ہے کیا نہیں مانا
جس نے زندہ خدا نہیں مانا
آج بھی وہ کلام کرتا ہے
خود جو بہرہ ہوا نہیں مانا
مان کر ہم نے پا لیا سب کچھ
اُس نے ٹھکرا دیا نہیں مانا
تھا فرشتوں کو حکم سجدے کا
وہ جو ابلیس تھا ، نہیں مانا
ان بتوں کو تو ٹھیس لگنی تھی
جن کو ہم نے خدا نہیں مانا
جانے کس کس نے امتحان لیا
پر کسی کا بُرا نہیں مانا
راستہ اس کو کیسے دکھلائیں
جل رہا ہے دیا ، نہیں مانا
عید کے روز رکھ لیا روزہ
چاند نکلا بھی تھا ، نہیں مانا
پیٹھ پیچھے کہا کہ سچا ہے
جب ہوا سامنا نہیں مانا
جس کو لالچ نہیں تھا کرسی کا
فرش پر آ گیا ، نہیں مانا
سچ کہو کیا نہیں ہوا ایسا
جس کا تھا ، آسرا نہیں مانا
طارق اس کو بھی دی دعا ہم نے
جس کو جو بھی کہا ، نہیں مانا

0
19