وہ جو کہتے ہیں بتاؤ تو محبّت کیا ہے
کیسے بتلائیں انہیں وصل کی لذّت کیا ہے
بادشاہت کو دیا چھوڑ کئی لوگوں نے
پیار کے سامنے یہ عزّت و شُہرت کیا ہے
ہم نے خورشید سے ذرّات کی طاقت جانی
جانے اب اور چھپی ان میں حقیقت کیا ہے
شبِ تاریک میں رہ کر یہ گماں گزرا ہے
اب ہمیں اور اُجالوں کی ضرورت کیا ہے
سانس لینے پہ لگائی نہیں پابندی ابھی
اور اس شہر میں حاکم کی عنایت کیا ہے
بِک گئے سب مجھے انصاف دلانے والے
سچ نہیں کہتا اگر میں تو صداقت کیا ہے
مجھ سے پہلے بھی تو گزرے ہیں کئی سچے لوگ
میری ان سے ذرا دیکھو تو شباہت کیا ہے
ہم محبّت کے لئے جاں بھی نچھاور کر دیں
پر اصولوں پہ نہیں جھکتے یہ عادت کیا ہے
طارق اب اور کہیں کیا ہے اشارہ کافی
عقل والوں کو جو سمجھائیں ہمیں جُراَت کیا ہے

0
71