حلول روح میں ہو گر، سنبھل نہیں سکتا |
میں وہ خیال ہوں دل سے نکل نہیں سکتا |
جکڑ لیا ہے غمِ ہجر نے جو پنجے میں |
قدم بڑھائے کہیں اب ٹہل نہیں سکتا |
شفا مریض کی دیدار یار میں رہتی |
بغیر دید کے جانم بہل نہیں سکتا |
کسی طرح سے بھی وعدہ نبھائیگا اپنا |
مگر وصال کی خواہش بدل نہیں سکتا |
ہے جان من پہ بھی ناصؔر بھروسہ پورا ہی |
اہم سے کاموں میں پر دے دخل نہیں سکتا |
معلومات