حلول روح میں ہو گر، سنبھل نہیں سکتا
میں وہ خیال ہوں دل سے نکل نہیں سکتا
جکڑ لیا ہے غمِ ہجر نے جو پنجے میں
قدم بڑھائے کہیں اب ٹہل نہیں سکتا
شفا مریض کی دیدار یار میں رہتی
بغیر دید کے جانم بہل نہیں سکتا
کسی طرح سے بھی وعدہ نبھائیگا اپنا
مگر وصال کی خواہش بدل نہیں سکتا
ہے جان من پہ بھی ناصؔر بھروسہ پورا ہی
اہم سے کاموں میں پر دے دخل نہیں سکتا

0
55