5۔6۔2023 |
نظم |
خدایا تُو نے جو کچھ بھی دیا ہے |
مجھے معلوم ہے ، تیری عطا ہے |
مرا جب خود بنا تُو رہنُما ہے |
دیا ہاتھوں میں پھر روشن دیا ہے |
ہوا آسان جس سے راستہ ہے |
بڑا مشکل ہے ،گو سب نے کہا ہے |
سلوک اپنوں نے غیروں سا کیا ہے |
مگر غیروں کی اپنوں سی ادا ہے |
کتابوں سے کہاں میں نے پڑھا ہے |
مجھے جو علم ہے ،تجھ سے ملا ہے |
بھروسہ میں نے جب تجھ پر کیا ہے |
توقّع سے کہیں بڑھ کر ملا ہے |
گناہوں کی اگر رکھی سزا ہے |
وصالِ یار ، نیکی کی جزا ہے |
ترے آگے جو سجدے میں گرا ہے |
کہاں در سے ترے خالی گیا ہے |
مری جھولی کو تُو نے بھر دیا ہے |
ترے فضلوں کی مجھ پر انتہا ہے |
مگر یہ تو سفر کی ابتدا ہے |
ترا جب وصل میرا منتہا ہے |
دیا تُو نے جو دل کو حوصلہ ہے |
رُکا تھا پھر اچانک چل پڑا ہے |
مرا جو رابطہ تجھ سے ہوا ہے |
یقیں ہے اب کہ تُو میرا خُدا ہے |
ارادوں کا ترے، تجھ کو پتہ ہے |
ترے ہاتھوں میں سب ردِّ بلا ہے |
دلوں کا حال سب تُو جانتا ہے |
ترا بندہ ہوں کیا مجھ سے خفا ہے ؟ |
معلومات