جو چھپا رکھا تھا چہرہ کُھل گیا |
حسن کا ہم سے جو پردہ کُھل گیا |
آنکھ سے ٹپکا ہے خونِ دل مگر |
کوچۂ جاناں کا رستہ کُھل گیا |
زلف اس نے کھول دی جب شام کو |
رات کی آمد کا عُقدہ کُھل گیا |
اس نے پوچھے تھے چنیدہ کچھ سوال |
رفتہ رفتہ سارا پرچہ کُھل گیا |
تھی خزانے کی ہمیں کب سے تلاش |
وہ ملا تو سارا نقشہ کُھل گیا |
چند لمحے اس کی صحبت میں رہے |
آنکھ بھیگی ، دل کا دجلہ کُھل گیا |
داستاں اس نے سنائی رات بھر |
صبحدم اک اور قصّہ کُھل گیا |
عمر بھر رکھی چھپا کر ساری بات |
پیار سے پوچھا تو بندہ کُھل گیا |
عشق سے پائی ہے طارق نے حیات |
عقل کی جانب ، دریچہ کُھل گیا |
معلومات