ہر اک سنگِ سیہ کعبے کے کونے میں نہیں آتا |
ہو پتھر دل ، سیہ دامن تو ، دھونے میں نہیں آتا |
اگر کوئی ملمّع ، دیکھنے میں بھی سنہرا ہو |
چمک جانے سے بھی زیور ، وہ سونے میں نہیں آتا |
زمانے میں بہت کچھ ہو گیا ہے ارتقا دیکھو |
مگر جو چاہئے ہونا، وہ ہونے میں نہیں آتا |
جو بوئیں وقت پر وہ بیج ، پھلتے پھولتے ہیں پھر |
مزہ ، موسم نہ ہو تو ، فصل بونے میں نہیں آتا |
مجھے تم سے زیادہ ، تم سے ملنے کی تمنّا ہے |
مگر کمبخت موسم ، ٹھیک ہونے میں نہیں آتا |
بہت کچھ کھو دیا پہلے ہے میں نے سودے بازی میں |
مگر دل کھو دیا جائے تو کھونے میں نہیں آتا |
مری چشمِ تصوّر سے وہ ہو سکتا نہیں اوجھل |
نہ آئے خواب میں تو لُطف سونے میں نہیں آتا |
اگر دل ساتھ آنکھوں کا نہ دے تنہائی میں طارق |
سکوں راتوں کے سجدوں میں بھی رونے میں نہیں آتا |
معلومات