ہر اک سنگِ سیہ کعبے کے کونے میں نہیں آتا
ہو پتھر دل ، سیہ دامن تو ، دھونے میں نہیں آتا
اگر کوئی ملمّع ، دیکھنے میں بھی سنہرا ہو
چمک جانے سے بھی زیور ، وہ سونے میں نہیں آتا
زمانے میں بہت کچھ ہو گیا ہے ارتقا دیکھو
مگر جو چاہئے ہونا، وہ ہونے میں نہیں آتا
جو بوئیں وقت پر وہ بیج ، پھلتے پھولتے ہیں پھر
مزہ ، موسم نہ ہو تو ، فصل بونے میں نہیں آتا
مجھے تم سے زیادہ ، تم سے ملنے کی تمنّا ہے
مگر کمبخت موسم ، ٹھیک ہونے میں نہیں آتا
بہت کچھ کھو دیا پہلے ہے میں نے سودے بازی میں
مگر دل کھو دیا جائے تو کھونے میں نہیں آتا
مری چشمِ تصوّر سے وہ ہو سکتا نہیں اوجھل
نہ آئے خواب میں تو لُطف سونے میں نہیں آتا
اگر دل ساتھ آنکھوں کا نہ دے تنہائی میں طارق
سکوں راتوں کے سجدوں میں بھی رونے میں نہیں آتا

1
68
پسندیدگی کا شکریہ جناب ناصر ابراہیم صاحب!

0