فلک ستاروں کی جھلملاہٹ سجائے ہوئے |
چمک رہا آب و تاب کیسی سمائے ہوئے |
طلوع پھر ہو غروب کیا خوب شمسی گردش |
نظام ہی یوم و شب کا رکھا پروئے ہوئے |
برستی برسات ہے تو ہریالی کا ہو منظر |
فریفتہ و دل لبھا سماں ہرسو باندھے ہوئے |
گرجنے سے بادلوں کے اک شور و غل بپا ہو |
کڑک گئی بجلیاں تو مدھم اجالے ہوئے |
نہ کچھ پتہ ابتدائی سرچشمہ مینہ کا بھی |
عجیب اسرار میں ہیں اسکے جو الجھے ہوئے |
رسائی ہو سکتی بھی جو کاریگری پہ رب کے |
گمان سے بھی پرے بناوٹ تراشے ہوئے |
بنائے ناصر یہ خوبصورت و حسین چہرے |
رہیں بھی رنگوں میں جس کے سارے جو کھوئے ہوئے |
معلومات