یوں ستم ڈھانا اس کی عادت ہے |
ہنس کے سہہ لینا میری فطرت ہے |
اُس کو اس بات کا گلہ کیا ہے |
سن کے چپ رہنا کیا عداوت ہے |
ہم نے اپنا سمجھ کے شکوہ کیا |
تم نے جانا کہ یہ بغاوت ہے |
دیکھ لینا حسین چہرے کو |
تم سمجھتے ہو کیا شرارت ہے |
تم کنایوں میں بات کرتے ہو |
ہو گئی کیا تمہیں محبّت ہے |
ہم کسی کا جو نام لیتے ہیں |
وہ سمجھتے ہیں یہ رقابت ہے |
آشنا اس کی ذات سے جو کرے |
مل گئی ہم کو وہ رفاقت ہے |
مسکراتا ہے دیکھ کر ہم کو |
آجکل بڑھ گئی سخاوت ہے |
فیصلہ خود ہی اس کو کرنا ہے |
ہاتھ میں اس کے جب عدالت ہے |
کچھ ہماری اگر ذرا سُن لے |
ہم سمجھ لیں گے کچھ شرافت ہے |
دور آیا ہے جو مسیحا کا |
آئی مہدی کی اب امامت ہے |
اس زمانے میں جو قبول کرے |
اصل میں تو یہی شجاعت ہے |
عقل سے کام لے کے چِت کر دے |
پہلواں ہے وہی ، حکایت ہے |
طارق اس کا ہوا جو شیدائی |
یہ تو اُس پر خُدا کی رحمت ہے |
معلومات