مقصُودِ تمنّا ہے کہ آشفتہ سری ہے |
ہر راہ گزر درد کے کانٹوں سے بھری ہے |
تم نےمجھے چھوڑا نہ کبھی مَیں ہؤا بد دل |
حالات کی گردش میں نصیبوں کی بلی ہے |
پیرانِ حرم بر سرِ پیکار ہیں باہم |
اس شہر میں نفرت کی عجب رسم چلی ہے |
وہ دورِ تہی دست کہ آدم ہؤا ناپید |
اک حُبِ زر و مال کہ ہر دل میں ڈھلی ہے |
سمجھا نہیں ابتک مَیں کبھی فصلِ بہاراں |
ہر غنچہ پریشان ہے افسردہ کلی ہے |
مُفتی کی ضرورت نہ کسی عالمِ دیں کی |
ہر آدمی علّامہ ہے ہر شخص ولی ہے |
کانٹوں بھری راہیں بھی ہیں اور تیرہ شبی بھی |
پر قافلہ سالار حسین ابنِ علی ہے |
معلومات