پھول ہیں کلیاں ہیں لیکن باغباں کوئی نہیں
ہم سفر ہیں ہم نوا ہیں رازداں کوئی نہیں
جیت لی توپوں نے بازی مار کر انسان کو
بچ گیا بارود لیکن بستیاں کوئی نہیں
کیا ہؤا ہے آسماں کو رنگ پھیکا پڑ گیا
چاند ہے تارے بھی ہیں پر کہکشاں کوئی نہیں
کیا ملا تجھ کو ستم گر لُوٹ کر شہر و نگر
شہر پھر آباد ہیں تیرا نشاں کوئی نہیں
تجھ کو شاید ہو نہ ہو لیکن مجھے احساس ہے
دل تو ہے سینے میں اس کی داستاں کوئی نہیں
جل اُٹھی ہیں بستیاں ویران ہیں سر و سمن
راکھ ہے کوچہ بکوچہ ترجماں کوئی نہیں
تجھ سے راہ و رسم تھی تو جانتے تھے لوگ بھی
اب مقفّل ہیں سبھی گھر کنجیاں کوئی نہیں
جھونپڑی کے پار امید اکثر گھروں کا حال ہے
دال ترکاری ملے تو روٹیاں کوئی نہیں

0
73