شکایت مجھے ان جوانوں سے ہے
جو شوقِ سیاست سے آزاد ہیں
جہاں بانی جن کی تھی دیرینہ خو
حسینوں کی الفت میں برباد ہیں
ادائے حسیں کے گرفتار ہیں
یہ فرہاد و مجنوں کے ہم زاد ہیں
بلندی جہانوں کی یہ چھوڑ کر
یہ ویران بستی میں آباد ہیں
زمانے کی ذلت کے دلدل میں بیٹھے
اسی میں مگن ہیں یہیں شاد ہیں
دو بیدارئیَ مغز کا تم ثبوت
وگرنہ یہ اسپین و بغداد ہیں
یہ شیطاں بھی تجھ سے پریشان ہے
زمیں تا فلک ہرشی حیران ہے
کسی زلفِ دوتا کو گر دیکھ لو
مچلتا ترے دل میں ارمان ہے
جوانی تری کتنی ویران ہے
فقط میرؔ و غالب ؔ کا دیوان ہے
حسینوں سے دل کو لگاتا ہے تو
اداؤں سے خود کو لبھاتا ہے تو
تجھے آتشِ رفتہ کیوں چاہۓ
رقیبوں کو خود سے جلاتا ہے تو
ہے قربِ حسیں مرقدِ زندگی
محبت نہیں مقصدِ زندگی
کوئ زلف برہم میں الجھا ہوا
کوئ دل تبسم سے سلجھا ہوا
اسیرِ محبت جو لالہ ہوا
ہے فرقت میں شبنم کی مرجھا ہوا
یمِ بے خودی بھی یہی عشق ہے
کہ مرگِ خودی بھی یہی عشق ہے
نہ پھل دے جو وہ بیج بوتا ہے تو
سدا کِشتِ انمول کھوتا ہے تو
سحر گاہی تجھ پر گراں بار ہے
شبِ ہجرِ یاراں میں روتا ہے تو
جوانی تری مہر و مہتاب ہے
کہ ہستی تری یہ جہاں تاب ہے
پری وش سے بہتر کئی حور ہیں
چمک برق و بجلی کشش نور ہیں
کئی حور بیٹھیں تری راہ پر
رسائی سے تیری مگر دور ہیں
وہاں تک رسائی اگر چاہیے
نظر اپنی نیچے جھکا لیجیے
تو آفاقی ہستی یہی تیری شان
نہ کر عشق بازی میری بات مان
نہیں زیب تجھ کو کبوتر کا سنگ
تو شاہیں ہے شاہینی پرواز جان
ابھی منتظر بھی بہت دور ہیں
محبت سے آگے جہاں اور ہیں
نہ کیوں تیری آنکھوں میں دیرینہ خواب
نہ کیوں تیرے دل میں وہ سوز اور تاب
پر و بال و شاہیں بھی حاصل تجھے
نہیں تجھ کو پھر کیوں نگاہِ عقاب
وجودِ چمن میں تو مانندِ پھول
حکومت تیری راہِ ہستی کی دھول
سیاست ہے فاروؔؓقِ اعظم کا نام
سیاست ہے میناۓ یثرب کا جام
سیاست ہے ایؔوب کی سلطنت
سیاست ہے حیؔدر علیؒ کا پیام
سیاست ہے عثمؔان کی سرگزشت
سیاست ملِکؔ شاہ سنؔجر کا دست
سیاست نشانی ہے محموؔد کی
سیاست ایازؔی کا ہے دستِ رست
سیاست ہے اورنگِ اورنگزیؔب
سیاست ہے آلات ِخوشرنگ زیب
سیاست سے تو بھی جہاں زیب ہے
سیاست سے دنیا یہ پازیب ہے
تمہیں کیا خبر اس کی کیا شان ہے
سیاست سے دربان سلطان ہے
سیاست ہی تختِ سلؑؔیمان ہے
سیاست بنا دین بے جان ہے
سیاست سے ہے یہ نظامِ حیات
سیاست سے قبضے میں کل کائنات
سیاست حیاتِ تمامِ امم
سیاست ہے وحدانیت کا علم
سیاست غزالؔی کی تقریر ہے
سیاست یہ طوسؔی کی تحریر ہے
سیاست یہ شامؔی کی تفسیر ہے
سیاست یہ امت کی تقدیر ہے
سیاست سے آباد سنسار ہے
سیاست سے ذرہ بھی کہسار ہے
سنو بلبلِ گلسِتاں کا پیام
سیاست سے مسلم کو ملتا دوام
سیاست جہاں بانی کا راز ہے
سیاست یہ عہدِ کہن ساز ہے
سیاست ہے پیغامِ حق کی صدا
سیاست ہے قرآن کی بھی ندا
سیاست ہے مظلوم کو داد رس
سیاست ہے بازوۓ فریاد رس
پلادے جوانوں کو پھر کہنہ جام
کرے ہند میں جو سیاست قیام
انہیں بھی جوانوں کا دے حوصلہ
عرب کے سواروں کا دے حوصلہ
بیاباں و صحرا کا دل چیر دے
بنا کر پہاڑوں سے شمشیر دے
تڑپتا رہے جو تری یاد میں
یہ مجنوں پھرے شہرِ آباد میں
سلگتا رہے جو کہ برسات میں
چمکتا رہے جو سیہ رات میں
جھکادے زمانے کو جو تیرے در
کہ گن گاۓ تیرا یہ بحر اور بر
عقابی نظر ان جوانوں کو دے
کبوتر کے بچوں کو شاہینی پر
ستاروں کی بستی زمیں بوس ہو
فلک کی بلندی زمیں بوس ہو
مسخر ہواؤں کو پھر عام کر
کہ شاہیں کا بچّہ ہوا دوش ہو
انہیں کے عمل سے جواں تیرا دیں ہے
یہی تیری بستی کا واحد مکیں ہے
گو دیتا ہے بیزاریوں کا ثبوت
مگر تیرے در پر جھکاتا جبیں ہے
محبت کی پہلی روش نا سہی
جو گر ہے بھی لیکن کشش نا سہی
تمناۓ لیلی ہے مثلِ سراب
یہ مجنوں پھرے ہے بے تعبیر خواب
عطا کر انہیں بھی وہ بیتاب دل
ہو برپا جہاں معرکہ کارگِل
کرے آشکارا جو رازِ حیات
امم کو دے وجہِ جہانِ ثبات
عیاں کردے ان پر تو کل کائنات
سکھادے انہیں بھی وہ رمز و نکات
جگر سوز نالہ ، نظر عالی دے
وہی دل وہی عشقِ اقبالؒؔی دے
خدایا مجھے شوقِ سرکار دے
وہ ہرشی مجھے جو ہے درکار دے
جواں عزم کو برق رفتار دے
جہانِ سیاست میں کردار دے
مری یہ دعا ہے مجھے مار دے
وگرنہ اداۓ جہاں دار دے
نگاہوں میں تأثیرِ اجداد دے
کہ تو بھی کبھی پھر مجھے داد دے
بنا اپنے شاہی ؔ کو سرکار دے
نگاہیں اسے مثلِ تلوار دے
سیاسی جواں ہے سیاست سکھا
زمانے میں پھر اس کا سکہ چلا
میں تنہا سیاست کا اک بزم ہوں
ارادے ہیں پختہ جواں عزم ہوں
شکست و فتح سے میں ہوں بے نیاز
مرا کام کرنا، ترا سرفراز
میسر انہیں ہر گھڑی دید ہو
یہی ہے علاجِ جواں دلگداز
انہیں ذوقِ خالد دے شوقِ علی
رواں ان کے رگ میں ہے خوں ترکتاز
انہیں سوزِ ٹیپو سے سرشار کر
یہ کمزور خاکی بھی ہے شیر باز
تری خاک میں ذرۂ آفتاب
تری لے سے روشن ہے صد ماہتاب
جہاں اس سے روشن ،وہ مہتاب ہے
تری تاب سے نورِ مہتاب ہے
سمجھتا ہے بس کہ یہی زندگی ہے
عباداتِ حق ہی فقط بندگی ہے
نکل جا اے غافل خیال و گماں سے
حیات و مماتوں کے ویراں مکاں سے
خلافت کا شیرازہ جو منتشر ہے
سیاست تری راہ کی منتظر ہے
بہاروں کے موسم میں افسردگی
گلِ نو کو ہے گل سے آزردگی
تبسم ہوا وجہِ شرمندگی
کلی ہوگئی نذرِ پژمردگی
غلامی اسیری کی پابندگی
سمجھتا ہے ناداں اسے زندگی
ابھی وقت فرصت ہے کچھ کام کر لو
کہ ہستی کو اپنی بھی خوش نام کرلو
اگر سو گیا اپنے اوقات میں
نہ آئے گا کچھ بھی ترے ہاتھ میں
تو ہے فاتح ِ عالمِ کن فَکن
سیاست کو ہر پل بنا اپنا دھن
حصولِ صنم سے وہ مجبور ہے
جنونِ محبت سے جو دور ہے
تڑپ جستجو کی جو پیدا کرے
یہ منزل انہیں پر ہویدا کرے
سیاست کو غافل ؔ ہمہ گیر کر
سیاست سے خود کو جہاں گیر کر
جو کرنا ہے تجھ کو زمانے کو رام
تو ہر لمحہ راحت ہے تجھ پر حرام
سلاطینِ عالم گداگر ترا ہو
کہ لے اپنے روشن خرد سے تو کام
ظفر کے لئے بس جنوں چاہیے
نہ طاقت نہ شہرت فسوں چاہیے
تماشائی نہ بن تو میداں میں آ
ہو یوسؑؔف جو تو بھی تو زنداں میں آ
صفت پھر وہ صحرا نشیں پیدا کر
نگر سے نکل کر بیاباں میں آ
میسر نہیں ہے عقابی نظر
نہیں تیرے سینے میں شاہیں جگر؟
سخاوت نشاں تیرے اجداد تھے
جہاں میں اسی سے وہ آباد تھے
مگر تیری فطرت تہی دست ہے
جو ہے باقی وہ بھی تہِ دست ہے
نگاہوں میں ہردم زیاں اور سود
گیا لے کے کوئی صفت ہاۓ جود
تو خاکی ہے پروازِ محوِ غرور
اسی سے ہے پاتا ترا دل سرور
یہ تعلیمِ لادیں کی ہے پرورش
نہیں ہے مگر تیرا اس میں قصور
تو رفتارِ گردوں کو حیران کر
تو پرواز اپنی مسلمان کر
تری عقل گو ہے بہت دردبیس
مگر سینا رکھتا ہے قلبِ خسیس
اسیرِ جہانِ بے وقعت نہ بن
یہ دنیا ترے ہی لیۓ ہے دریس
کہ شک ہی نہیں اس میں لا ریب ہے
ہو گر بات دیں کی تہی جیب ہے
گو ہستی تری ذرۂ ریگزار
نہیں تجھ سے بہتر مغل شہسوار
سیاست ہے غیروں میں وجہِ درار
مگر مجھ کو آتا اسی سے قرار
الجھ سا گیا ہوں میں اس کھیل میں
مرے واسطے نے ہے راہِ فرار
سیاست کہ دینارِ مضروب ہے
مرے واسطے مثلِ مشروب ہے
سیاست سے دوری شبِ ہجر ہے
سیاست مجھے وصلِ محبوب ہے
نگاہِ پریشاں کے دل کا قرار
مری آنکھ روۓ اسے زار زار
سیاست مجھے اتنا محبوب ہے
کہ عاشق کو مہ جتنا محبوب ہے
سیاست مجھے جان و دل سے عزیز
سیاست مجھے بھول و گل سے عزیز
سیاست مجھے بڑھ کہ وصلِ حسیں
سیاست پسند ہے مرا ہم نشیں
سیاست ہے سیں سے اشعار شین
انہیں سے بچاؤں گا میں اپنا دین
سیاست مری ہاں جہاں گیر ہوگی
نمایا ہے جس میں یہ بھارت وَ چین
اسی پیچ و خم میں الجھتا گیا
میاں سین و شیں میں میؔں پھنستا گیا
یہی کچھ متاع ہے یہ نادار کی
صنم جاں گسل ہے مرے یار کی
سناؤں تمھیں بات کیا راز کی
تمہیں تو پڑی ہے فقط پیار کی
مچل آتا روحوں سے الفاظ میں
نکلتا ہوں جذبوں سے الفاظ میں
اثر ہو نہ ہو بر میری بات سن
کرو پیدا خود میں سیاست کا گن
کہاں تک رہو گے مگن رنگ و بو میں
ہوئی دیر غافل کہ اب زود کن
کہ بزمِ سیاست میں تو خود کو چُن
سیاست سے اسلامی شیرازہ بُن
دِیا اپنے گھر میں تو پہلے جلا
زمانے کی ٹکر کا بازو بنا
اگر ہنؔد میں تجھ کو رہنا سدا
پیادہ نہیں خود کو راجہ بنا
اسے ہی ملا حق کہ جو لڑ گیا
اگر ڈر گیا جو تو وہ مر گیا
سیاست ہی طرزِ جنوں اولیں
سیاست ہی دیں ہے کہیں نا کہیں
سیاست ہی اس دور میں تیغ ہے
سیاست سے دنیا میں محفوظ دیں
سیاست ہے وجہِ بصد آفریں
سیاست سے آباد دار و مکیں
سیاست ہی دیں کا ستوں اولیں
سیاست ہی نگرانِ دینِ مبیں
سیاست ہی قوموں کی روشن جبیں
سیاست ہی وجہ دوامِ زمیں
یہی دورِ حاضر کا پیغام ہے
سیاست سے محفوظ اسلام ہے
نہ آئیں سیاست کے ایواں میں گر
طلوع ہوگا نورِ خدا کفر پر
نشاں صفحۂ ہستی سے مٹ جائے گا
مٹے گا جہانِ فنا یہ مگر
چمکتا رہے گا یہ مہر و نگیں
ہمیشہ رہے گا محمدﷺ کا دیں

1
61
شکریہ محترم ?