بس ایک زندگی وہ بھی گذر نہیں پاتی |
ہمیشہ جینے کی پھر بھی حِرص نہیں جاتی |
شکم یہ سیر ہے لیکن یہ ہاتھ کیسے رکیں |
اس آنکھ میں ہے جو لیکن ہَوس نہیں جاتی |
سبب جو غم کا تھا وہ یاد ہی نہیں ہم کو |
غم کی دل پہ مگر دسترس نہیں جاتی |
غلط کیے ہیں بہت فیصلے کہ اب ہم سے |
عمل کے وقت پہ اب پیش و پس نہیں جاتی |
رہا ہوئے مجھے اک عمر ہو گئی شاہدؔ |
مگر یہ دل ہے کہ یادِ قفس نہیں جاتی |
معلومات