عارض و لب کو جو گلزار بنا دیتے ہیں |
حسن کو شرم و حیا اور جِلا دیتے ہیں |
آپ تو دل کے نہاں خانوں میں رہتے ہیں کہیں |
ہم تو غیروں کو سر آنکھوں پہ بٹھا دیتے ہیں |
مل انہیں جا کے کبھی ، محفلِ یاراں تو سجا |
دوست جتنے بھی پرانے ہوں ، مزا دیتے ہیں |
پوچھنے آئے ہیں گھر پر وہ طبیعت میری |
تُجھ کو بیمارئ دل ، دل سے دعا دیتے ہیں |
شرم سے یوں تو جھکے رہتے ہیں نیناں تیرے |
اور اُٹھ جائیں تو پھر حشر اُٹھا دیتے ہیں |
دشت میں نام تِرا لے کے صدا دینے کا |
سینہ چاکانِ محبّت ہی صلہ دیتے ہیں |
ہوش میں آتا نہیں کوئی بھی عاشق ان کا |
حسن والے یہ نشہ کیسا پلا دیتے ہیں |
یوں تو ہیں خاک نشیں، سوختہ ساماں طارق |
اس کے قدموں میں دل و جان لُٹا دیتے ہیں |
معلومات