دامنِِ تر سے نہیں داغوں کو دھونا آیا
ہم کو پلکوں پہ نہیں اشک پرونا آیا
بھول جائیں گے اسے ہم نے یہ سوچا تھا مگر
ذکر اس کا نہ تھا پھر بھی ہمیں رونا آیا
کھیل کر مجھ سے ذرا دیر پرے پھینک دیا
ہاتھ میں اس کے نیا جیسے کھلونا آیا
زخم اس نے جو کریدے ہیں مرے ماضی کے
یاد مجھ کو بھی کہاں درد کا ہونا آیا
ہاتھ میں ہاتھ دیا اس کے تو محسوس ہوا
جیسے قسمت سے مرے ہاتھ میں سونا آیا
باغباں خوش ہوا تعریفِ گل و لالہ سے
چلو کچھ کام تو پودوں کا بھی بونا آیا
کتنے بیمار ہیں ہر روز شفا پاتے ہیں
ایک اب تک نہیں قابو میں کرونا آیا
آؤ طارق کریں کچھ کام زمانے کے لئے
یاد کس وقت ہمیں وقت کا کھونا آیا

0
122