گھر میں کیوں شور ہے ، شہروں میں ہوا سنّاٹا |
دل کی دھڑکن نے مری توڑ دیا سنّاٹا |
شہر کے دشت میں تھا ، صبح و مسا ہنگامہ |
اس پہ تنہائی کےصحرا میں ملا سنّاٹا |
وقت کی جھیل پہ ، اس نے ہی مرا ساتھ دیا |
جب مری یادوں کی ناؤ میں چلا سنّاٹا |
عمر بھر جسم رہا گویا کسی اور کے ساتھ |
روح پر یوں اثر انداز رہا سنّاٹا |
چیخ اک اور اٹھی ، ظلم کا اعلان ہوا |
شہر خاموش ہے ، کوئی نہ صدا ، سنّاٹا |
آئینہ دل کا جو ٹوٹا ہے تو اک شور ہوا |
میرے اندر سے مرا ٹوٹ گیا سنّاٹا |
پھر عذاب آئے ہیں جب آہ فلک تک پہنچی |
دیر تک رات کو اشکوں میں ڈھلا سنّاٹا |
طارق اب کوئی تو آواز یہاں اُٹھے گی |
یوں نہیں چلتا چلا جاتا ، سدا سنّاٹا |
معلومات