گھر میں کیوں شور ہے ، شہروں میں ہوا سنّاٹا
دل کی دھڑکن نے مری توڑ دیا سنّاٹا
شہر کے دشت میں تھا ، صبح و مسا ہنگامہ
اس پہ تنہائی کےصحرا میں ملا سنّاٹا
وقت کی جھیل پہ ، اس نے ہی مرا ساتھ دیا
جب مری یادوں کی ناؤ میں چلا سنّاٹا
عمر بھر جسم رہا گویا کسی اور کے ساتھ
روح پر یوں اثر انداز رہا سنّاٹا
چیخ اک اور اٹھی ، ظلم کا اعلان ہوا
شہر خاموش ہے ، کوئی نہ صدا ، سنّاٹا
آئینہ دل کا جو ٹوٹا ہے تو اک شور ہوا
میرے اندر سے مرا ٹوٹ گیا سنّاٹا
پھر عذاب آئے ہیں جب آہ فلک تک پہنچی
دیر تک رات کو اشکوں میں ڈھلا سنّاٹا
طارق اب کوئی تو آواز یہاں اُٹھے گی
یوں نہیں چلتا چلا جاتا ، سدا سنّاٹا

1
109
پسندیدگی کا بہت شکریہ جناب محمود انتانون صاحب نوازش

0