چلو کہ شام ہو گئی
چلو کہ وقت کم بچا
مسافتیں طویل ہیں
منزلوں کی اب تلک
ہم کو کچھ خبر نہیں!
چلے تھے ہم یہ سیکھ کر
کہ منزلیں ہی اہم ہیں
حاصل_ سفر ہیں یہ
افق کے پار منزلیں ---
چلے تو ہم تمام عمر
افق بھی سنگ سنگ چلا
جو فاصلہ افق سے تھا
وہ فاصلہ وہیں رہا
اور منزلیں افق کے پار----
وہ راستہ چلے جو ہم
ہم اس سے بے خبر رہے
نظر ہماری ڈھونڈتی رہی افق کے پار کچھ ---
اور اب تو شام ہو گئی
اور وقت بھی نہیں بچا
اور اب ہمیں خبر ہوئی
کہ راستے تھے منزلیں
اب کھو گئیں ہیں منزلیں!

0
4
128
کتنی اداسی ہے اور کتنی چھپی ہوئی تلخی پیدا کر دی ہے

میرے بھائی یہی زندگی کی حقیقت ہے:

جب مجھے زندگی سمجھ آئی ! ! ! ! ! !
کوچ کے دن قریب تھے میرے

شاہد صاحب
مجھے بہت اچھی لگی ہے آپکی یہ نظم۔
بلکہ معانی کے اعتبار سے درست فرمایا ہے آپ نے!!!
ہاں
کچھ فنی پہلوؤں پر بات ہو سکتی ہے
جیسے
- بین البحور تغیر
- طوالت فی سطر
اور
- نظم کا عمومی ڈھانچہ
آپکے جواب کا منتظر
عدنان مغل

0
عدنان بھائی آپکی راۓ سے سوفیصد متفق ہوں۔ میں نے شاعری پچھلے سال لاک ڈاؤن میں شروع کی۔ میں فنِ شاعری سے بالکل نابلد ہوں۔ اور عروض پہ اشعاعت کا مقصد ہی یہی ہے کہ آپ جیسے اساتذہ سے مستفیض ہو سکوں۔ بسم ﷲ کریں

0