مجھ کو شبِ فراق سے ہرگِز گِلہ نہیں |
وصل و فراق داستاں ہے فاصلہ نہیں |
اس پیڑ کے نیچے ہے کسی بے گنہ کی لاش |
شاید اسی لئے کوئی پتّا ہرا نہیں |
صحرا سے آ رہی ہے کسی فاقہ کش کی گونج |
دنیا میں زندہ رہنے سے بڑھ کر سزا نہیں |
ساری دعائیں کر لیں اُٹھا کر فلک کو ہاتھ |
اس نامراد بھُوک کی کوئی دعا نہیں |
نا جانے کیوں نفور ہیں یارانِ بذلہ سنج |
مانا بُرا سہی مگر اتنا بُرا نہیں |
اکثر شبِ وصال کے ساتھی چلے گئے |
ہم بھی چلیں امید کسی کو بقا نہیں |
معلومات