مجھ کو شبِ فراق سے ہرگِز گِلہ نہیں
وصل و فراق داستاں ہے فاصلہ نہیں
اس پیڑ کے نیچے ہے کسی بے گنہ کی لاش
شاید اسی لئے کوئی پتّا ہرا نہیں
صحرا سے آ رہی ہے کسی فاقہ کش کی گونج
دنیا میں زندہ رہنے سے بڑھ کر سزا نہیں
ساری دعائیں کر لیں اُٹھا کر فلک کو ہاتھ
اس نامراد بھُوک کی کوئی دعا نہیں
نا جانے کیوں نفور ہیں یارانِ بذلہ سنج
مانا بُرا سہی مگر اتنا بُرا نہیں
اکثر شبِ وصال کے ساتھی چلے گئے
ہم بھی چلیں امید کسی کو بقا نہیں

57