کہیں کسی کے لئے بات یہ عجیب نہ ہو |
نجیب کیسے ہو ، جو بندۂ منیب نہ ہو |
ملے وہ مجھ سے مگر ساتھ میں رقیب نہ ہو |
پھر اس کے بعد گھڑی ہجر کی نصیب نہ ہو |
رکھے وہ دوستی مجھ سے بغیر شرطوں کے |
وہ دل کی بات کرے گو کہ وہ ادیب نہ ہو |
مریضِ عشق ہوں اس کا بنے وہ چارہ گر |
وہ دکھ کو دور کرے چاہے وہ طبیب نہ ہو |
وطن سے دور ہو مجبوریوں کے باعث جو |
امیر ہو یا نہ ہو دل کا وہ غریب نہ ہو |
سفر میں جائے تو ہو ہمسفر خیالوں میں |
ذرا بھی دل سے مرے دور وہ حبیب نہ ہو |
سکھائے علم جو حکمت سے اور محبّت سے |
زبان شیریں ہو گو وہ بڑا خطیب نہ ہو |
بھروسہ کس پہ کریں سب ہیں اپنی دُھن میں مگن |
یہاں ہمارا اگر کوئی بھی حسیب نہ ہو |
دعائیں ہوتی ہیں کیسے قبول پھر ساری |
کبھی یہ ہو نہیں سکتا خدا مجیب نہ ہو |
ہے تیری زیست کا مقصد ہی اور کیا طارق |
تِرا حبیب ، ترے دل کے گر قریب نہ ہو |
معلومات