زہر میں بجھتی ہوئی بیل ہے دیوار کے پاس
جس طرح نائکہ بیٹھی ہو گنہ گار کے پاس
مجھ سے ملنا ہے تو یہ قید نہیں مجھ کو پسند
ہر ملاقات مقیّد رہے اتوار کے ساتھ
ایک ہی وار میں مرنے سے کہیں بہتر ہے
ایک اک سر کہ جو کٹتا رہے تلوار کے ساتھ
مَیں نے ہرگام پہ ان لوگوں کو مرتے دیکھا
وہ جو جیتے رہے اس دور میں کردار کے ساتھ
یہ جہاں مفلس و نادار کا ہمدرد ہو کیوں
جس کے ہر کونے پہ تحریر ہے زردار کے ساتھ
کوئی شاعر مرے مرنے کی خبر لایا ہے
ایک سہہ کالمی سرخی لئے اخبار کے ساتھ
جشنِ خوں ناب ہے مقتل میں مغنّی سے کہو
کوئی اک راگ نیا گیت ہو ملہار کے ساتھ
مَیں بھی اس شہرِ خموشاں کا ہی ساکن ہوں امید
جس کی ہر لوح پہ تحریر ہے سالار کے ساتھ

61