پھر کسی شخص کو سولی پہ چڑھایا جائے
شہر میں جو بھی کہے سچ وہ گھمایا جائے
تیرے عاشق جو گرفتار کئے جاتے ہیں
اپنے سینے پہ تِرا نام کڑھایا جائے
اب تو سورج بھی سوا نیزے پہ آ پہنچا ہے
اب تو سوئے ہوئے لوگوں کو جگایا جائے
ہیں کہاں میرے وفادار صدا آتی ہے
عہد جو باندھ کے بیٹھے ہیں نبھایا جائے
ابرِ رحمت نے جو بر سایا ہے پانی پھر سے
وہ تو ہر پیاسے کو جی بھر کے پلایا جائے
آ گیا ہے کوئی گلشن کی حفاظت کے لئے
سُرخ پھولوں سے ہر اک رہ کو سجایا جائے
صُو ر پھونکا ہے کسی نے تو وہ آیا ہوگا
کھول کر کان یہ بہروں کو سنایا جائے
شادیانے تو خبر دیتے ہیں اب منزل کی
جانے کون اترے کسے آگے چلایا جائے
دیر تک ہم سے وہ ناراض نہیں رہ سکتے
اب تو روٹھے ہوئے لوگوں کو منایا جائے
آزمائش کی گھڑی جب بھی کبھی آئی ہے
کون تیّار ہوا ہم کو جلایا جائے
طارق آئے گا جو سچ سامنے واضح ہو کر
جھوٹ کو کر کے برہنہ بھی دکھایا جائے

0
41