کئی دنوں سے مرے تخیّل میں ایک چہرہ ہی آ رہا ہے |
یہ تُو نہیں کوئی اور ہے جو کھڑے کھڑے مسکرا رہا ہے |
جو کرنا چاہو تو بند کرلو کواڑ سارے بھی کھڑکیاں بھی |
گلی کا بھی کچھ خیال رکھنا کوئی جنازہ بھی جا رہا ہے |
نہ اِس نے نوچا نہ اُس نے نوچا وجود پھر بھی لہو لہو ہے |
کوئی تو ہے وہ حرام زادہ جو تجھ کو اندر سے کھا رہا ہے |
نہیں محبّت کا لمس کوئی وجودِ ظاہر یا جسم واللہ |
اگر یہ دعویٰ ہے سچ پہ مبنی تو کون فتنے اٹھا رہا ہے |
اسے اٹھایا مجھے گرایا اسے اٹھا کے گرا رہا ہے |
کوئی تو ہے جو نظامِ ہستی کو ہر جہت سے چلا رہا ہے |
یہ بہتے آنسو اجاڑ چہرے دریدہ آنکھیں غریب وحشت |
یہ جب اٹھیں گے تو حشر ہوگا زمانہ ہاتھوں سے جا رہا ہے |
معلومات