کئی دنوں سے مرے تخیّل میں ایک چہرہ ہی آ رہا ہے
یہ تُو نہیں کوئی اور ہے جو کھڑے کھڑے مسکرا رہا ہے
جو کرنا چاہو تو بند کرلو کواڑ سارے بھی کھڑکیاں بھی
گلی کا بھی کچھ خیال رکھنا کوئی جنازہ بھی جا رہا ہے
نہ اِس نے نوچا نہ اُس نے نوچا وجود پھر بھی لہو لہو ہے
کوئی تو ہے وہ حرام زادہ جو تجھ کو اندر سے کھا رہا ہے
نہیں محبّت کا لمس کوئی وجودِ ظاہر یا جسم واللہ
اگر یہ دعویٰ ہے سچ پہ مبنی تو کون فتنے اٹھا رہا ہے
اسے اٹھایا مجھے گرایا اسے اٹھا کے گرا رہا ہے
کوئی تو ہے جو نظامِ ہستی کو ہر جہت سے چلا رہا ہے
یہ بہتے آنسو اجاڑ چہرے دریدہ آنکھیں غریب وحشت
یہ جب اٹھیں گے تو حشر ہوگا زمانہ ہاتھوں سے جا رہا ہے

52