حالات اپنے خود بھی ذرا سا سنبھالئے
ہیں آج کے جو مسئلے ، کل پر نہ ٹالئے
نکلے ہیں آسماں پہ زمیں کی حدود سے
تہہ میں سمندروں کے بھی پاؤں لگا لئے
احساس کچھ عجیب سا آکر ہوا یہاں
جیسے کسی نے سوچ پہ پہرے بٹھا لئے
کہتے ہیں جو بھی کہہ چکے اب تک تو ہے معاف
آگے نہ ایک لفظ بھی منہ سے نکالئے
نفرت کی آندھیوں میں ہوئے گُل سبھی چراغ
ہم نے محبّتوں کے دئے پھر جلا لئے
جس جس نے ہم سے کی تھی بھلائی جہان میں
جنّت میں کیا انہوں نے ، نہیں گھر بنا لئے ؟
کہتے ہیں رہ گئے تھے جو کرنے سے کچھ گناہ
وہ نیکیاں تو کھاتے ہمارے میں ڈالئے
طارق نہ دیکھ پائے ، بصیرت جنہیں نہ تھی
ہم نے خزانے علم کے تو بے بہا لئے

0
41