حالات اپنے خود بھی ذرا سا سنبھالئے |
ہیں آج کے جو مسئلے ، کل پر نہ ٹالئے |
نکلے ہیں آسماں پہ زمیں کی حدود سے |
تہہ میں سمندروں کے بھی پاؤں لگا لئے |
احساس کچھ عجیب سا آکر ہوا یہاں |
جیسے کسی نے سوچ پہ پہرے بٹھا لئے |
کہتے ہیں جو بھی کہہ چکے اب تک تو ہے معاف |
آگے نہ ایک لفظ بھی منہ سے نکالئے |
نفرت کی آندھیوں میں ہوئے گُل سبھی چراغ |
ہم نے محبّتوں کے دئے پھر جلا لئے |
جس جس نے ہم سے کی تھی بھلائی جہان میں |
جنّت میں کیا انہوں نے ، نہیں گھر بنا لئے ؟ |
کہتے ہیں رہ گئے تھے جو کرنے سے کچھ گناہ |
وہ نیکیاں تو کھاتے ہمارے میں ڈالئے |
طارق نہ دیکھ پائے ، بصیرت جنہیں نہ تھی |
ہم نے خزانے علم کے تو بے بہا لئے |
معلومات