لَــوْلَاكَ لَـــمَا خَـــلَقْـتُ الأفْــــلَاكَ
کہنے کو تو کہتے ہیں یہ سبھی کہ عشق حسین تماشا ہے
لیکن کہ وجودِ عالم ہی سمجھو تو عشق سراپا ہے
محبوب کے قدموں میں قرباں کرنے کو کہیں سے کیا لاؤں
خورشید و قمر تارے یہ سبھی یہ بزمِ جہاں بھی ذرا سا ہے
رندوں کو پلانا خونِ جگر یہ خاص صفت ہے شبیری
یہ ساقیِ مے خانہ ہے وہی جو عشقِ خدا کا پیاسا ہے
اس راہِ محبت میں اے دل! دنیا کی ہرشی لٹا دینا
یہ رسمِ خلیلِؑ سبحانی یہ شوخ انداز وفا کا ہے
دو اہلِ وفا کا سرمایہ یہ عیدِ سعیدِ قرباں ہے
یہ عاشقِ عشقِ حقیقی کو قدرت کا بہیں اک تحفہ ہے
وہ اپنے حبیبوں میں مجھ کو کرتا نہیں شامل کیوں آخر
بیتاب سا دل سینے میں ہے وہ بھی تو عشق شناسا ہے
کہنے کو تو دنیا کہتی ہے اقبالؔ کا پرتو مجھ کو مگر
تو بھی تو بتا اے نکتہ چیں ! شاہؔی کہ سخن ور کیسا ہے
ؔ

1
96
لَــوْلَاكَ لَـــمَا خَـــلَقْـتُ الأفْــــلَاكَ