زمانے میں نہیں ہے اس سے بڑھ کر جب حسیں کوئی
یقیناً انتہائے عشق کو پہنچا کہیں کوئی
محبّت کے عجب آثار اس میں پائے جاتے ہیں
نظر آئے نہ جس کو اس زمیں پر مہ جبیں کوئی
چمن میں گل فلک پر چاند اس کو جب نظر آئیں
وہ ان کو دیکھ کر کہتا ہے اس جیسا نہیں کوئی
ستارے رشک سے دیکھیں اگر ماہِ منوّر کو
تو سورج جس سے روشن ہو وہ ہے نُورِ مبیں کوئی
اسی کی صنعتِ کامل کے ہیں سارے نشاں دیکھو
یہ دانے پھول پھل گوہر اگلتی ہے زمیں کوئی
نہیں پہچان پائے گر وہ صنعت کار ہم اب تک
کسی سے پوچھ لیں اب بھی جو مل جائے ذہیں کوئی
جہاں کا کارخانہ چل رہا ہے اس کی قدرت سے
صدا کن کی جو دیتا ہے سرِ عرشِ بریں کوئی
اسی کے گیت گاتا ہے اسی کی حمد کرتا ہے
کہ طارق بھی ہے اس کی رحمتوں کا خوشہ چیں کوئی

0
56