میں تو لکھتا ہوں کبھی ،چاہے جو من ہے میرا
طفلِ مکتب ہوں یہ آغازِ سُخن ہے میرا
گھر کی دیواروں نے گاتے ہوئے سُن رکھا ہے
صوت و آہنگ سے اتنا سا لگن ہے میرا
میری بیماری میں پھولوں نے عیادت کی ہے
یوں تو خوشبو سے بھرا رہتا چمن ہے میرا
میرے اسلاف میں گو نام بڑے ہیں لیکن
ہر طرف اب، مری پہچان ،چلن ہے میرا
وہ تو خود سے بھی زیادہ کرے احساں مجھ پر
اتنا سادہ سا ، دیا لوُ وہ ، سجن ہے میرا
وہ جو آئے تو خزاؤں میں بہار آ جائے
وہ گلاب ایسا رہے ، خندہ دہن ہے میرا
میں کسی اور کا سوچوں مجھے فرصت ہی نہیں
اس کی باتوں میں یہ دل اتنا مگن ہے میرا
ہے جو پرواز ، تخیُّل کی مرے ، اتنی بلند
اپنے افلاک سے کچھ دور گگن ہے میرا
دلِ بیتاب کی دھڑکن کو سنبھالو طارق
ہے وہ مائل بہ کرم ، جلد مِلن ہے میرا

0
77