یوں مکر نہ جاتے گر دل میں تمہارے پیار ہوتا |
نہ ہی کوئی بے سبب آپ کا بھی شکار ہوتا |
کہ بڑے بے آبرو، رنج و الم میں لوٹے واپس |
"یہ نہ تھی ہماری قسمت کہ وصالِ یار ہوتا" |
کبھی دیکھتا اِدھر تو کبھی دیکھتا اُدھر میں |
جو جھلک بھی پاتا تیری تو مجھے قرار ہوتا |
ہے ستم ظریفی دکھ بھی لبِ بام تک جو پہنچا |
غمِ زندگی سے تھک کر بے خطر حصار ہوتا |
بڑی آس پانے کی تھی کہ قبول کاش کرتے |
بصمیمِ قلب ہی آپ پہ میں نثار ہوتا |
اِسی میں ہے خیر ناصؔر رہے اپنی لاج باقی |
مزہ ورنہ کیا جو مجروح یہاں وقار ہوتا |
معلومات