آنکھوں میں روز و شب اسی کا گھر بسا رہے |
پھر کیسے دور ہم سے ہمارا خدا رہے |
ہم نے سفر میں کب کوئی خود سے قدم لیا |
اسکا ہمیشہ ڈھونڈتے ہم نقشِ پا رہے |
پھولوں کے ساتھ دوستی کچھ اس لئے بھی کی |
گلشن کے ساتھ رشتۂ بوئے وفا رہے |
لازم ہے پیاس دل کی بجھانا بھی دید سے |
سینچا نہیں جو کھیت وہ کب تک ہرا رہے |
اس دل میں ایک اس کا بسیرا ہے مستقل |
ممکن نہیں کوئی یہاں اُس کے سوا رہے |
چاہے گا کون نیند نہ آئے وہ جب مرے |
اس طرح آئے خواب میں چہرہ کھلا رہے |
کچھ دیر یوں بھی اس نے ملانے دیا نہ ہاتھ |
وہ چاہتا ہے ہاتھ پہ رنگِ حنا رہے |
طارق نہ اس سے ہو سکی جی بھر کے گفتگو |
حائل ہمارے بیچ میں شرم و حیا رہے |
معلومات