تمہارے سامنے جھک کر روایت عام کرتے ہیں
تمہارے حسن کا چرچا ہم صبح و شام کرتے ہیں
تمہیں پر دل نچھاور جان کا صدقہ تمہیں پر ہے
ہمارے پاس جو کچھ ہے تمہارے نام کرتے ہیں
تمہیں دیکھا نہیں تھا تو سفر تھا اپنے پاؤں میں
تمہیں دیکھا ہے جب سے خود کو زیرِ دام کرتے ہیں
تمہاری بے یقینی کو یقیں میں آج بدلیں گے
تمہاری مسکراہٹ پر یہ دل کو نیلام کرتے ہیں
چلو اے قافلے والو یہ منزل ہے پڑاو کی
وہ شاید ہم کو کہہ بھیجیں ذرا آرام کرتے ہیں

0
67