دوستی نا پی نہیں جاتی ہے پیمانے میں |
دو سَتی ہوتے ہیں اک دوجے پہ یارانے میں |
دوستی یوں تو مقدّر سے ملے جس کو ملے |
زیست کھو دیتے ہیں کچھ لوگ اسے پانے میں |
بسترِ مرگ پہ ہوں قبر کی تیّاری ہے |
اور تم کہتے ہو کچھ دیر ہوئی آنے میں |
تم تو مصروف تھے دن رات نہیں آ پائے |
بھیج دیتے کوئی پیغام ہی انجانے میں |
کب ملے تھے تمہیں اب یاد نہ ہو گا شاید |
تم مجھے دیکھ کے لوٹ آئے تھے مے خانے میں |
اب تمہیں دیکھ کے احساس ہوا ہے مجھ کو |
میں نے اپنا کوئی دیکھا کسی بیگانے میں |
دوستی اس کو نہیں کہتے کہ مل بیٹھیں ہم |
دوستی چھپ کے رہے دل کے نہاں خانے میں |
ہم نے اک عمر گزاری ہے تری یادوں میں |
تُجھ کو اس بار مگر دیر لگی آنے میں |
کوئی شکوہ یا شکایت تو نہیں ہے تُجھ سے |
اب کہاں جائیں گے لکھوانے رپٹ تھانے میں |
ہاں مگر جانے سے پہلے مجھے کندھا دے دو |
تم کو تسکین ملے گی یہ سزا پانے میں |
معلومات