چھوڑ کر مجھ کو صنم تو نے بڑا کام کیا
میری بے کیف جوانی کو مرے نام کیا
مجھ کو لَوٹائے مرے گزرے زمانے کے خیال
مرے خوابوں کے دریچوں کو سرِ بام کیا
مجھ کو سمجھایا کہ دنیا کی حقیقت کیا ہے
بے زر و زر کے تفاوت کو سبک گام کیا
وقت کی دھول میں مجبوروں کی وقعت جیسے
زندگی جبر رہی قبر میں آرام کیا
اپنے ہی باپ کو بیٹی نے کہا سنکی تھے وہ
جَون کو اس کے پرستاروں میں بدنام کیا
ڈنکے کی چوٹ پہ کرتے ہیں خیانت حاکم
اس طرح غیرت و ایمان کو نیلام کیا
بڑی خواہش تھی کہ تادیر رہے نام مرا
قبر میں دیکھا تو ہر کام ہی بے نام کیا
یہ الگ بات ابھی ویسے کا ویسا ہے امید
عادتاً ایسا ہوں جو کام کیا خام کیا

64