تغیر کی یہ دنیا ہے کہ میں بھی ہوں مکیں اس کا |
یقینی بےیقینی میں بھی رہتا ہے یقیں اس کا |
یہ سامانِ سفر اتنا میں باندھوں کس لئے جاناں |
کہ کتنا دور جانا ہے بھروسہ کچھ نہیں اس کا |
بناؤں کیا سجاؤں کیا یہ مٹی کے بتوں کو میں |
تخیل نے ہی رہنا ہے کہ ہو چہرہ حسیں اس کا |
کہ میرے بعد آنے والوں میں یہ تیرتی رہتی |
کہ سچ گوئی پکڑنی ہے کہ رہنا ہے امیں اس کا |
ترے آنے سے جانے تک حسابوں کی ضرورت کیا |
جو ملنا ہے یہ مٹی میں کہ رہنا ہے یہیں اس کا |
مجھے تو اب سمجھ آتی ہے اس پیچیدہ رستے کی |
کہ آنا بھی کہیں سے ہے کہ جانا بھی کہیں اس کا |
کہ وصلِ یار ہی ہے واسطہ تسکینِ دل کا بس |
کہ ایسے مطمئن ہو گا جو ہے قلبِ خزیں اس کا |
ہمایوں ایک دھوکہ ہے یہ دنیا سے محبت بھی |
کہ تُو نے یاد رکھنا ہے یہ رہنے کا قریں اس کا |
ہمایوں |
معلومات