وحشت تری آنکھوں سے نکل جائے تو اچھا
حسرت جو مسرّت میں بدل جائے تو اچھا
مہمانوں سے ہوتی تھی ترے گھر میں جو رونق
اب یاد سے اس کی تُو بہل جائے تو اچھا
خود بینی کا سامان ، شکستہ ہوئے دیکھا
گر دل کا بھی آئینہ بدل جائے تو اچھا
بہتر ہے جو قابو میں ہوں ، جذباتِ محبّت
لیکن یہ کبھی دل جو مچل جائے تو اچھا
گھر سے گئے لیلیٰ کو بھی مدّت ہوئی کتنی
اب دشت سے دل مجنوں کا ٹل جائے تو اچھا
ہنگامۂ موسیقی سے ہم کو نہیں مطلب
گا کر جو کوئی عمدہ غزل جائے تو اچھا
آنکھیں جو بنی جلوۂ قدرت کے لئے ہیں
یہ حُسنِ نظر پیار میں ڈھل جائے تو اچھا
آنکھوں میں بسا ہے جو ترے وصل کا سپنا
تعبیر میں اس بار وہ ڈھل جائے تو اچھا
ہے راہ کٹھن دور بھی ہے منزلِ مقصود
کھا کر کوئی ٹھوکر بھی سنبھل جائے تو اچھا
یکدم جو نظر آتے ہیں اب رستے فنا کے
طارق یہ بلا جان سے ٹل جائے تو اچھا

0
50